گزشتہ پانچ سال میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے حکومت پنجاب کے اقدامات
بیسویں صدی بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور جدت کی صدی ہے اس صدی میں انسان نے ترقی کی وہ منزلیں طے کی ہبیسویں صدی بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور جدت کی صدی ہے اس صدی میں انسان نے ترقی کی وہ منزلیں طے کی ہیں جن کے بارے اس قبل شاید انسان سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ اس دور میں جہاں انسان نے چاند پر قدم رکھ کر خلائی دنیا کے ساتھ اپنے راستے استوار کیے وہاں ٍسیٹلائیٹ کی ایجاد کرکے ذرائع ابلاغ میں وقت اور فاصلوں اور دوری کو مٹا دیا۔ ان تمام ایجادات میں سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجاد ایک لاثانی حیثیت رکھتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسان کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ انٹرنیٹ کی ایجاد سے دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور عصر حاضر میں انٹرنیٹ اولاد آدم کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ترقی کی اس دوڑ میں تمام ایجادات کا اگر موازنہ کیا جائے تو سافٹ وئیر کو وہ مقام ملتا ہے جو کسی دوسری ایجاد کے حصے میں نہیں آتا ۔ کاروبار ہو یا تفریح، جنگ ہو یا امن، خوشحالی ہو یا بدحالی، پیداواری عمل ہو یا تعمیراتی، صحت ہو یا کھیل کا میدان، تعلیم کا حصول ہو یا ہنر سیکھنے کا عمل غرض زندگی کے ہر شعبے میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی نے ترقی کا ایک انقلاب بر پاکر دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی ایک بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
سافٹ ویئر ٹیکنالوجی ایک کم خرچ مگر بالا نشیں نسخہ ہے ۔ بھارت اس وقت سافٹ ویئر بنانے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی ترقی کا گراف بڑی تیزی سے بلند ہوا ہے ۔ یہ کسی کمپیوٹر میں مخصوص ضروریات کے حوالے سے پروگرام کا نام ہے۔ اس کے بعد وہ کام جو گھنٹوں میں بھی مشکل سے ہوتا ہے سکینڈوں میں ہونے لگتا ہے اور اس کیلئے صرف ایک کمانڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاروبار اور تعلیم کے میدان میں سافٹ ویئر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی سافٹ ویئر کا نیٹ ورک ہر ادارے اور شعبے تک پھیلانے کیلئے بہت ساری اصلاحات کی گئی ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں حکومت پاکستان ورچوئیل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائی تاکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق آئی ٹی کے فروغ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس یونیورسٹی کا نیٹ ورک آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیلا دیا گیا سب سے اہم بات یہ اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے کو مرحلے کو آسان تربنایا گیا جبکہ فیس بھی عام طالب علم کی استطاعت کے مطابق رکھی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے کمپیوٹرز پر درآمدی ڈیوٹی بھی ختم کر دی تاکہ ہر خاص عام تک کمپیوٹر کی پہنچ اور استعمال آسان ہو جائے۔ بیرون ممالک میں مختلف سافٹ ویئر اور پروگرامز کی سی ڈیز انتہائی مہنگے داموں ملتی ہیں جبکہ پاکستان میں اس مسئلے کو زیادہ قیمت کی رکاوٹ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ یہ حکومت پاکستان کی سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کیلئے قابل ستائش اصلاحات ہیں۔
صوبائی سطحوں پر آئی ٹی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو پنجاب اس ڈویلپمنٹ میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں حکومت پنجاب نے آٹی کے فروغ کیلئے شاندار اقدامات کیے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک اور ڈیمانڈ بیسڈ ٹرینگ پراجیکٹ کا قیام سلسلے کیا ہم ترین کڑیاں ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت اور اور پنجاب میں اس کے وسیع تر نیٹ ورک کے فروغ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی روزگار ، اچھی آمدن کے حصول کیلئے ایک ایسا ذریعہ جس کا اس وقت اور متبادل نہیں ہے۔ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کی بنیاد وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے 3جولائی2006کو پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں فیروز پور روڈ پر رکھی۔ اس موقع پر اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہاس منصوبے کو دسمبر 2008تک پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے گا ۔ اس منصوبے کی تکمیل سے ہزاروں فریش گریجوایٹس کو نوکریاں ملیں گے۔ اس سافٹ ویئر پارک کی تعمیر مارڈن طرز عمل پر کی گئی ہے جو کہ امریکہ، برطانیہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قائم شدہ سایئر ہاوسز اور پارکس کے معیار سے ہم آہنگ ہے۔ اس پارک کی تعمیر سے نہ صرف صوبہ پنجاب مستفید ہو گا بلکہ یہ پورے ملک کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے بلاشبہ پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی دنیا میں داخل ہو جائے گا۔
سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے فروغ کے سلسلے میں دوسرا انقلابی اقدام ڈیمانڈ بیسڈ سافٹ ویئر ہاوس کا قیام ہے۔ اس ہاوس میں ملک بھر اور خصوصا صوبہ پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کاروبار اور روز مرہ زندگی سے متصل پراجیکٹس کو چلانے کیلئے پروگرامز مہیا کیے جائیں گے۔ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں پیداوری عمل میں تیزی اور انسان کی جسمانی مشقت میں کمی آئی وہاں معیار میں بھی اضافہ ہوا ۔ اس وقت انٹرنییشنل مارکیٹ میں بڑی سے بڑی فرم سے لیکر ایک چھوٹی سے چھوٹی دکان تک کے مطلوبہ سافٹ ویئرز اور پروگرامز دستیاب ہیں جس سے روز مرہ کے اخراجات میں کمی آتی ہے اورout put بھی زیادہ شفاف طریقے سے ملتی ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل ایسی مارکیٹ اور ادارہ نہیں تھا جو ملکی ضروریات کے پیش نظر لوگوں کو سافٹ ویئر پروگرامز مہیا کر سکے ۔ بڑی کمپنوں اور اداروں کو اپنے نیٹ ورک چلانے کیلئے برونی سافٹ ویئر کمپنیوں سے سافٹ ویئرز خریدنا پڑتے تھے جو کافی گراں قدر قیمت پر خریدے جاتے تھے اس کے علاوہ ملک کے اندر بھی موجود پرائیویٹ کمپنیاں عالمی معیار کے سافٹ ویئر ز بنانے سے قاصر ہیں لیکن حکومت پنجاب کے ان اقدامات کی بدولت پاکستان کی ترقی کی سپیڈ بھی شارٹ کمانڈز کی طرح تیز ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ حکومت پنجاب نے صوبہ بھر میں موجود جیلوں کو بھی کمپیوٹرائزڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں واقع زیادہ تر جیلیں افرنگی دور کی قائم کردہ ہیں جن کیلئے اس سے قبل خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور ان جیلوں کی حالت دن بدن ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔ان جیلوں میں موجود قیدیوں کی ڈیٹا مینول ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات خطرناک قیدیوں کا ریکارڈ تبدیل ہو جاتا تھا لیکن کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی بدولت اس طرح کی ہیر پھیر کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ جیلوں کا سسٹم بالکل شفاف ہو جائے گا جس سے کسی کی حق تلفی ممکن نہیں رہے گی۔
حکومت پنجاب نے چھوٹے پیمانے پر بھی کمپیوٹر کی تعلیم اور سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے خاص اقدامات کیے یہاں تک کہ پنجاب کے دیہی علاقوں کے ہائی سکولوں میں کمپیوٹرز مہیا کیے گئے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے طلبا و طالبات بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید دور کی انتہائی اہم تعلیم سے بھی بہرہ مند ہو کر ملک کے روشن مستقبل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونے کیلئے ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ کے بعد بھارت اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر وہ ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا حصہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر منحصر ہے یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی ترقی کا گراف تیزی سے بلند ہوا ہے۔
بھارت اور چین میں آئی ٹی کے ہائی کوالیفائیڈ افراد کیلئے روزگار اور معقول آمدن کے بے شمار مواقع دستیاب ہیں لیکن ہمارے یہاں بہت سارے آئی ٹی پروفیشنلز کو معقول مواقع نہ ملنے کی وجہ سے امریکہ کینڈا اور یورپ ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ حکومت پنجاب کو اس سلسلے میں اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی پروفیشنل کسی ملک کیلئے تیار فصل کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر یوں ہی یہ تیار شدہ فصل سے دوسرے ممالک فائدہ اٹھاتے رہے تو ملک کے اندر یہ اہم اقدامات بھی وہ فائدہ نہیں دے سکیں گے جو انہیں دینا چاہے۔ 2003ئ میں صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے ایک تیرہ سالہ لڑکی نے سافٹ ویئر پروگرام oracleمیں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے نہ صرف ایک کم عمر آئی ٹی ماہر کا عالمی ریکارڈ قائم کیا بلکہ پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ اس سے قبل یہ اعزاز پڑوسی ملک بھارت کے ایک چودہ سالہ طالبعلم نے بنایا تھا۔ ملک کے اس brain drain کو آئی ٹی کے میدان میں آگے لانے کا خاطر خواہ مواقع نہیں دیئے گئے ۔ پاکستان خاص طور پر صوبہ پنجاب میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن اسے تلاش اور پالش کرنے کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment